Tehzeeb Hafi Urdu Poem Hum milenge kahin Complete Poem here.. Tehzeeb Hafi Poetry is most famous among young generation, younger students who love to read romantic, love and sad ghazal, 2 lines poetry and shayari. Tehzeeb Hafi Poetry allow the readers to express their inner heart feelings with anyone you love.
Latest Famous Ghazal by Tehzeeb Hafi
Mujhse wo kafir musalman to na ho paya kabhi
Here u can read the best and famous poetry of Tehzeeb Hafi, ghazal new, 2 lines best poetry and ghazal shayari. Hum milenge kahin se is a latest Poem of Tehzeeb Hafi and it's viral on social medias U can copy just these poetry text and share with love one's.
Hum Milenge Kahin Tehzeeb Hafi Complete Poem
ہم ملیں گے کہیں! اجنبی شہر کی خواب ہوتی ہوئی شاہراہوں پر اور شاہراہوں پہ پھیلی ہوئی دھوپ میں، ایک دن ہم کہیں ساتھ ہوں گے وقت کی آندھیوں سے اٹی ساعتوں پر سے مٹی ہٹاتے ہوئے، ایک ہی جیسے آنسو
بہاتے ہوئے۔۔
ہم ملیں گے گھنے جنگلوں کی ہری گھاس پر اور کسی شاخِ نازک پہ پڑتے ہوئے گوش کی داستانوں میں کھو جائیں گے۔ ہم سنوبر کے پیڑوں کے نوکیلے پتوں سے صدیوں سے سوئے ہوئے دیوتاؤں کی آنکھیں چبھو جائیں گے۔۔
ہم ملیں گے کہیں برف کے بازوؤں میں گِھرے پربتوں پر بانچ قبروں میں لیٹے ہوئے کوہ پیماؤں کی یاد میں نظم کہتے ہوئے جو پہاڑوں کی اولاد تھے اور اُنھیں وقت آنے پر ماں باپ نے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔
ہم ملیں گے کہیں شاہ سلیمان کے عُرس میں، حوض کی سیڑھیوں پر وضو کرنے والوں کے شفاف چہروں کے آگے، سنگِ مَر مَر سے آراستہ فرش پر پیر رکھتے ہوئے آہ بھرتے ہوئے اور درختوں کو مَنت کے دھاگوں سے آزاد کرتے ہوئے ہم ملیں گے۔۔
ہم ملیں گے نارمینڈی کے ساحل پر آتے ہوئے اپنے گُم گشتہ راستوں کی خاکِ سفر سے اٹی وردیوں کے نشان دیکھ کر مراکز سے پلٹے ہوئے ایک جرنائل کی آخری بات پر مسکراتے ہوئے ایک جہانِ جنگ کی چوٹ کھاتے ہوئے ہم ملیں گے۔۔
ہم ملیں گے روس کی دہشتاؤں کی جھوٹی کہانی پر آنکھوں میں حیرت سجائے ہوئے شام، لیبنان، ویروت کی نرگسی چشموروں کی آمد سے نوحوں پہ ہنستے ہوئے، خونی قزینوں سے مفلوج البانیاں کے پہاڑی علاقوں میں مہمان بن کر ملیں گے۔۔
ہم ملیں گے ایک مردہ زمانے کی خوش رنگ تہذیب میں جذب ہونے کے امکان میں، ایک پُرانی عمارت کے پہلو میں اُجڑے ہوئے لان میں اور اپنے اثیروں کی راہ دیکھتے ہوئے بانچ صدیوں سے ویران زندان میں
ہم ملیں گے تمناؤں کی چھتریوں کے تلے خواہشوں کی ہواؤں کے بےباک بوسوں سے چھلنی بدن سونپنے کے لیے راستوں کو ۔۔
ہم ملیں گے زمیں سے نمودار ہوتے ہوئے آٹھویں براعظم میں اُڑتے ہوئے ایک قالین پر۔۔
ہم ملیں گے کسی بار میں اپنی بقایا بچی عُمر کی پائمالی کے جام ہاتھ میں لیں گے اور ایک ہی گھونٹ میں ہم یہ سیال اندر اُتاریں گے اور ہوش آنے تلک گیت گائیں گے بچپن کے قصے سناتا ہوا گیت جو آج بھی ہم کو ازبر ہے، بیڑی وے بیڑی تُوں ٹھلدی تاں پائی ہیں پتے پار کیا ہائی؟ پتے پار کیا ہائی؟
ہم ملیں گے باغ میں، گاؤں میں، دھوپ میں، چھاؤں میں، ریت میں، دشت میں، شہر میں، سجدوں میں، قالیس میں، مندر میں، مہراب میں، چَرچ میں، موسلادھار بارش میں، بازار میں، خواب مجں، آگ میں، گہرے پانی میں، گلیوں میں، جنگل میں، اور آسمانوں میں کون و مکاں سے پرے غیر آباد سیارہِ آرزو میں صدیوں سے خالی پڑی بینچ پر جہاں موت بھی ہم سے دست و گریبان ہو گی، تُو بس ایک دو دن کی مہمان کو گی۔۔
2 Comments
Laanat hai tum pr kaam nhi aata to na kro na...likhna bhi nhi aata madar chod ko
ReplyDeleteits good
ReplyDelete